Salim, Mazhar & Shakil's Blog
A shared blog hosted by Mohd. Saleem Khan, Mazhar Masood and Shakil Akhtar to pour out their experiences of life span of about 65 years each and share memories of past good or bad with each other as well as with all viewers of this blog.
Sunday 2 August 2015
Monday 13 April 2015
URDU SHAYRI AFTER 9/11
RFIULLAH MIAN WRITES
You will APPRECIATE this WRITE up fully if you are well versed with Urdu and like to see hidden MEANING in poetic compositions. Rafiullah mian gives a scintillating ACCOUNT of a SELECTION of Urdu shers that depict the thought apparently prevalent among YOUNG Urdu poets in India Pakistan TODAY. First I will give the ACTUAL write up and at the end will try to give in ENGLISH the gist of the same for those who cannot READ Urdu.
کھڑکی میں
خواب
(کالم: روزنامہ ایکسپریس بروز اتوار پانچ اپریل)
رفیع اللہ میاں
(کالم: روزنامہ ایکسپریس بروز اتوار پانچ اپریل)
رفیع اللہ میاں
شعری
ذوق رکھنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لفظ کے سامنے کے معنی سمجھ کر واہ
واہ کرتے ہیں اور دوم وہ جو لفظ کے پیچھے موجود مخفی معنی تک رسائی حاصل کرکے لطف
اندوز ہوتے ہیں۔ ہمارے لخت لخت معاشرے میں یہ دونوں غنیمت ہیں۔ جب سے نائن الیون
نے جنم لیا ہے، زندگی اتنی پیچیدہ، بدنما اور خوف ناک ہوگئی ہے کہ لوگ اصل اور
تعین سے کٹ کر محض لمحاتی زندگی جینے لگے ہیں۔ ہر انسان اپنے ذہن میں زندگی گزارنے
کے لیے کچھ نہ کچھ اصول متعین کرتا ہے‘ جن پر وہ حال اور مستقبل دونوں میں ممکنہ
پیش آسکنے والے واقعات پر اپنے ردعمل یا رویے کا تعین کرتا ہے۔ یوں اس کی زندگی
میں ربط کی ایک ڈور تسلسل کی نشان دہی کرتی ہے۔ آج کا انسان کہیں اس تسلسل سے
عملاً محروم ہے اور کہیں نفسیاتی طور پر۔
ایسے میں شعری ذوق رکھنے والے اس تسلسل کی باریک ڈور کو تھام سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شاعر اگر اپنے سماج سے اس کی روح کی سطح پر جڑا ہوا نہ ہو تو وہ اُسے اس ڈور کا سرا فراہم نہیں کرپاتا اور اس طرح معاشرے میں شعری ذوق کا رجحان پروان چڑھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ غنیمت یہ بھی ہے کہ غزل کا سفر اب بہت آگے نکل چکا ہے حتیٰ کہ یہ مابعد نائن الیون کے دور میں بھی داخل ہوچکی ہے۔ نوجوان شعرا آج کے سماج سے کسی نہ کسی سطح پر جڑ کر اچھے اشعار کہ رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کا سماج جغرافیائی حدود میں قید نہیں ہے اور اس نے ساری اردو دنیا کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے۔ جے پور سے میرے دوست عادل رضا منصوری نے پاک بھارت سے پندرہ نوجوان شعرا کا ایک انتخاب اس نکتہ نظر کے تحت چھاپا ہے کہ اردو نقاد آج کی نئی آواز اور فکر کو ہمدردانہ نگاہ سے دیکھنے پر تیار نہیں اور وہ آج بھی اس مقولے سے چمٹا ہوا ہے کہ ”اردو میں ساٹھ سال سے پہلے رجسٹریشن ہی نہیں ہوتی۔“ چناں چہ انہوں نے پچیس سے چالیس کے درمیان عمر والے نوجوان شعرا کے کلام کا انتخاب چھاپنے کی ٹھانی۔ اس انتخاب کا مطالعہ کرنے کے بعد جی چاہا کہ اس میں موجود چند اچھے اشعار پر بات کی جائے تاکہ یہ سلسلہ رکے نہیں بلکہ آگے بڑھے۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ اس کا سطحی پن ہے جس نے سماجی قدروں کو نسیان کی تہ میں دھکیل دیا ہے۔ لوگوں کا شور جتنا بڑھ گیا ہے زبان کی وحدت اور اس کا تخلیقی و تہذیبی استعمال اتنا ہی گھٹ گیا ہے۔ اگر زبان کو ہم ایک قوت مان لیں اور گفتگو کو اس کی پروڈکٹ‘ تو ہم دیکھتے ہیں کہ پروڈکٹ نے اپنی تیارکنندہ قوت ہی کو کھالیا ہے۔ اسی طرح روشنی ایک پروڈکٹ ہے جو اپنے مصدر چراغ پر حملہ آور ہے۔ جس طرح آج کے دور میں گفتگو مصنوعی اور سطحی ہے اسی طرح ہمیں نظر آنے والی روشنیاں بھی مصنوعی ہیں جو مایوسیوں کے اندھیروں میں زندگی کی معنویت کو روشن کرنے سے قاصر ہیں۔ لاہور کے عدنان بشیر نے اس حقیقت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
زبان گفتگو کے شور میں کہیں پہ کھوگئی
چراغ روشنی کے خوف کا شکار ہوگیا
اُترپردیش کے امیرامام نے رات کو ایک زندہ وجود کے طور پر دیکھا تو اس کے دکھ کا انکشاف ہوا۔ دور بسنے والے ستارے جو زینت یا سفر یا دنوں کے حساب میں معاون ہوتے ہیں‘ دراصل انسان کے لیے بنیادی ضرورت کی نوعیت کے حامل نہیں جتنا سورج ہے‘ جس سے حیات کا امکان پھوٹتا ہے۔ زمین پر معاشرتی زندگی کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ انسان بے فیض ستاروں کا بوجھ تو بہت ڈھو رہا ہے لیکن اسے حیات بخش سورج میسر نہیں آرہا ہے۔ یہ انسانی رہبری کا المیہ ہے۔ ایک ایسی صبح کا المیہ جو اس کے دکھوں کے لیے حقیقی روشنی کا مرہم لے کر نہ آسکے۔ اسی تھکادینے والے المیے کا اظہار دیکھیں اس شعر میں:
اپنے کاندھے پہ اٹھاؤں میں ستارے کتنے
رات ہوں اب کسی سورج کو بلانا چاہوں
اور امیرامام کا یہ شعر دیکھیں جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہم کس طرح مابعد نائن الیون دور میں جینے کا سامان کررہے ہیں‘ جہاں ہمیں کسی اچھے اور تازہ خیال تک رسائی کے لیے بھی خون کے دریا سے گزرنا پڑے گا:
شاہ رگِ خیال سے تازہ لہو ابل پڑے
اے مرے ذہن جنگجو کاری سا کوئی وار کر
انسان کا اس مادی کائنات کے اندر مقام نہایت معنویت کا حامل ہے جو تعمیر و ترقی سے عبارت ہے۔ تعمیر و ترقی کا کام ایک روحی جذبے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انسان ہی وہ مخلوق تھی جس نے تہذیبی و اخلاقی ارتقا کا بیڑا اٹھایا۔ یہ مادی کائنات وقت کی روح میں ہر آن پھیلتی جارہی ہے اور انسان اس ارتقائی عمل کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس تصور کو نئی دہلی کے سالم سلیم نے یوں باندھا ہے:
جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو
روح کے اندر کوئی کارِ بدن ہوتا ہوا
نئی دہلی کے تصنیف حیدر نے اس سے ملتے جلتے شعری اظہار میں کائنات کے دیگر حصوں میں حیات کے نشان تلاش کرنے کے سائنسی عمل کے ذریعے انسان کی امتیازی حیثیت کو یوں بیان کیا ہے:
دشت میں پانی کے قدموں کے نشاں
ہم نہ دیکھیں گے اگر دیکھے گا کون
آج کے گرد آلود اور پیچیدگیوں بھرے سماج میں انسانی ذہن جن پریشان کن اور غیر یقینی کیفیات کی زد میں ہے‘ ان کی وجہ سے نہ صرف فکرو شعور پر اندھیرا چھایا ہے بلکہ تمام معاشرہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہم سورج کو طلوع ہوتے دیکھتے ہیں لیکن کم ہی اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ معنوی طور پر ہمارے سماج پر رات کا بسیرا تاحال قائم ہے۔ حسن ابدال کے ضیاءالمصطفیٰ ترک کا شعر دیکھیں:
عجب ہے گرد گزشتہ دنوں کی چھٹتی نہیں
یہ کیا کہ صبح تو ہوتی ہے رات کٹتی نہیں
عین اسی صورت حال کو ایک اور لیکن زیادہ خوبصورتی سے اور روح عصر سے جڑے طرز اظہار میں لاہور کے حماد نیازی نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے۔ لیکن ان کے شعر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں امید کا رنگ بھی واضح ہے۔ یہاں ”دھند کے لشکر“ کا استعمال دیکھیں۔ اندھیرے میں دیا کام آجاتا ہے لیکن دھند میں تو دیا بھی کام نہیں آتا۔ یعنی دھند سے لڑنے کی اپنی سی کوشش کرنے والے بھی موجود ہیں جو غنیمت ہیں۔
دھند کے لشکر کا چاروں اور پہرہ تھا مگر
اک دیے نے روشنی کی رات بھر تشہیر کی
اگر ایک طرف ہم ملکی سطح پر قومی وجود کے طور پر تنزلی کا شکار ہیں تو دوسری طرف عالمی وجود کی حیثیت سے بھی بطور انسان ہم اقداری تنزلی کا شکار ہیں۔ ہم اندھیروں کی جانب خود کو دھکیل رہے ہیں‘ اور ہم نے اپنے اس روشن عہد کو موت کی تاریکیوں میں بدل دیا ہے۔ حسن ابدال کے دلاور علی آذر کا یہ شعر دیکھیں:
عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
ہم اپنے عہد کے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں
دوسرے شعرا کی طرح عادل رضا منصوری کے اس مرتب کردہ انتخاب میں خود ان کی بھی پانچ غزلیں شامل ہیں۔ کتاب کا نام ”کھڑکی میں خواب“ ان کی ایک غزل کے شعر سے لیا گیا ہے۔ یہ شاید ہمارے لخت لخت سماج کے انسان کے بے ثبات اور کچے خوابوں کا استعارہ ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہم انھی خوابوں میں رہتے ہیں۔ دیکھیں:
اس میں کیسے رہتے ہو
کھڑکی میں ہے خواب کھلا
اور اب آخر میں ملتان کے احمد رضوان کا ایک خوبصورت شعر بلاتبصرہ :
جب بھی کہیں حساب کیا زندگی کا دوست
پہلے تمھارے نام کا حصہ الگ کیا
ایسے میں شعری ذوق رکھنے والے اس تسلسل کی باریک ڈور کو تھام سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شاعر اگر اپنے سماج سے اس کی روح کی سطح پر جڑا ہوا نہ ہو تو وہ اُسے اس ڈور کا سرا فراہم نہیں کرپاتا اور اس طرح معاشرے میں شعری ذوق کا رجحان پروان چڑھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ غنیمت یہ بھی ہے کہ غزل کا سفر اب بہت آگے نکل چکا ہے حتیٰ کہ یہ مابعد نائن الیون کے دور میں بھی داخل ہوچکی ہے۔ نوجوان شعرا آج کے سماج سے کسی نہ کسی سطح پر جڑ کر اچھے اشعار کہ رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کا سماج جغرافیائی حدود میں قید نہیں ہے اور اس نے ساری اردو دنیا کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے۔ جے پور سے میرے دوست عادل رضا منصوری نے پاک بھارت سے پندرہ نوجوان شعرا کا ایک انتخاب اس نکتہ نظر کے تحت چھاپا ہے کہ اردو نقاد آج کی نئی آواز اور فکر کو ہمدردانہ نگاہ سے دیکھنے پر تیار نہیں اور وہ آج بھی اس مقولے سے چمٹا ہوا ہے کہ ”اردو میں ساٹھ سال سے پہلے رجسٹریشن ہی نہیں ہوتی۔“ چناں چہ انہوں نے پچیس سے چالیس کے درمیان عمر والے نوجوان شعرا کے کلام کا انتخاب چھاپنے کی ٹھانی۔ اس انتخاب کا مطالعہ کرنے کے بعد جی چاہا کہ اس میں موجود چند اچھے اشعار پر بات کی جائے تاکہ یہ سلسلہ رکے نہیں بلکہ آگے بڑھے۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ اس کا سطحی پن ہے جس نے سماجی قدروں کو نسیان کی تہ میں دھکیل دیا ہے۔ لوگوں کا شور جتنا بڑھ گیا ہے زبان کی وحدت اور اس کا تخلیقی و تہذیبی استعمال اتنا ہی گھٹ گیا ہے۔ اگر زبان کو ہم ایک قوت مان لیں اور گفتگو کو اس کی پروڈکٹ‘ تو ہم دیکھتے ہیں کہ پروڈکٹ نے اپنی تیارکنندہ قوت ہی کو کھالیا ہے۔ اسی طرح روشنی ایک پروڈکٹ ہے جو اپنے مصدر چراغ پر حملہ آور ہے۔ جس طرح آج کے دور میں گفتگو مصنوعی اور سطحی ہے اسی طرح ہمیں نظر آنے والی روشنیاں بھی مصنوعی ہیں جو مایوسیوں کے اندھیروں میں زندگی کی معنویت کو روشن کرنے سے قاصر ہیں۔ لاہور کے عدنان بشیر نے اس حقیقت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
زبان گفتگو کے شور میں کہیں پہ کھوگئی
چراغ روشنی کے خوف کا شکار ہوگیا
اُترپردیش کے امیرامام نے رات کو ایک زندہ وجود کے طور پر دیکھا تو اس کے دکھ کا انکشاف ہوا۔ دور بسنے والے ستارے جو زینت یا سفر یا دنوں کے حساب میں معاون ہوتے ہیں‘ دراصل انسان کے لیے بنیادی ضرورت کی نوعیت کے حامل نہیں جتنا سورج ہے‘ جس سے حیات کا امکان پھوٹتا ہے۔ زمین پر معاشرتی زندگی کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ انسان بے فیض ستاروں کا بوجھ تو بہت ڈھو رہا ہے لیکن اسے حیات بخش سورج میسر نہیں آرہا ہے۔ یہ انسانی رہبری کا المیہ ہے۔ ایک ایسی صبح کا المیہ جو اس کے دکھوں کے لیے حقیقی روشنی کا مرہم لے کر نہ آسکے۔ اسی تھکادینے والے المیے کا اظہار دیکھیں اس شعر میں:
اپنے کاندھے پہ اٹھاؤں میں ستارے کتنے
رات ہوں اب کسی سورج کو بلانا چاہوں
اور امیرامام کا یہ شعر دیکھیں جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہم کس طرح مابعد نائن الیون دور میں جینے کا سامان کررہے ہیں‘ جہاں ہمیں کسی اچھے اور تازہ خیال تک رسائی کے لیے بھی خون کے دریا سے گزرنا پڑے گا:
شاہ رگِ خیال سے تازہ لہو ابل پڑے
اے مرے ذہن جنگجو کاری سا کوئی وار کر
انسان کا اس مادی کائنات کے اندر مقام نہایت معنویت کا حامل ہے جو تعمیر و ترقی سے عبارت ہے۔ تعمیر و ترقی کا کام ایک روحی جذبے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انسان ہی وہ مخلوق تھی جس نے تہذیبی و اخلاقی ارتقا کا بیڑا اٹھایا۔ یہ مادی کائنات وقت کی روح میں ہر آن پھیلتی جارہی ہے اور انسان اس ارتقائی عمل کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس تصور کو نئی دہلی کے سالم سلیم نے یوں باندھا ہے:
جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو
روح کے اندر کوئی کارِ بدن ہوتا ہوا
نئی دہلی کے تصنیف حیدر نے اس سے ملتے جلتے شعری اظہار میں کائنات کے دیگر حصوں میں حیات کے نشان تلاش کرنے کے سائنسی عمل کے ذریعے انسان کی امتیازی حیثیت کو یوں بیان کیا ہے:
دشت میں پانی کے قدموں کے نشاں
ہم نہ دیکھیں گے اگر دیکھے گا کون
آج کے گرد آلود اور پیچیدگیوں بھرے سماج میں انسانی ذہن جن پریشان کن اور غیر یقینی کیفیات کی زد میں ہے‘ ان کی وجہ سے نہ صرف فکرو شعور پر اندھیرا چھایا ہے بلکہ تمام معاشرہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہم سورج کو طلوع ہوتے دیکھتے ہیں لیکن کم ہی اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ معنوی طور پر ہمارے سماج پر رات کا بسیرا تاحال قائم ہے۔ حسن ابدال کے ضیاءالمصطفیٰ ترک کا شعر دیکھیں:
عجب ہے گرد گزشتہ دنوں کی چھٹتی نہیں
یہ کیا کہ صبح تو ہوتی ہے رات کٹتی نہیں
عین اسی صورت حال کو ایک اور لیکن زیادہ خوبصورتی سے اور روح عصر سے جڑے طرز اظہار میں لاہور کے حماد نیازی نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے۔ لیکن ان کے شعر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں امید کا رنگ بھی واضح ہے۔ یہاں ”دھند کے لشکر“ کا استعمال دیکھیں۔ اندھیرے میں دیا کام آجاتا ہے لیکن دھند میں تو دیا بھی کام نہیں آتا۔ یعنی دھند سے لڑنے کی اپنی سی کوشش کرنے والے بھی موجود ہیں جو غنیمت ہیں۔
دھند کے لشکر کا چاروں اور پہرہ تھا مگر
اک دیے نے روشنی کی رات بھر تشہیر کی
اگر ایک طرف ہم ملکی سطح پر قومی وجود کے طور پر تنزلی کا شکار ہیں تو دوسری طرف عالمی وجود کی حیثیت سے بھی بطور انسان ہم اقداری تنزلی کا شکار ہیں۔ ہم اندھیروں کی جانب خود کو دھکیل رہے ہیں‘ اور ہم نے اپنے اس روشن عہد کو موت کی تاریکیوں میں بدل دیا ہے۔ حسن ابدال کے دلاور علی آذر کا یہ شعر دیکھیں:
عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
ہم اپنے عہد کے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں
دوسرے شعرا کی طرح عادل رضا منصوری کے اس مرتب کردہ انتخاب میں خود ان کی بھی پانچ غزلیں شامل ہیں۔ کتاب کا نام ”کھڑکی میں خواب“ ان کی ایک غزل کے شعر سے لیا گیا ہے۔ یہ شاید ہمارے لخت لخت سماج کے انسان کے بے ثبات اور کچے خوابوں کا استعارہ ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہم انھی خوابوں میں رہتے ہیں۔ دیکھیں:
اس میں کیسے رہتے ہو
کھڑکی میں ہے خواب کھلا
اور اب آخر میں ملتان کے احمد رضوان کا ایک خوبصورت شعر بلاتبصرہ :
جب بھی کہیں حساب کیا زندگی کا دوست
پہلے تمھارے نام کا حصہ الگ کیا
Thursday 18 December 2014
ज़ख़्म
देखे न कोई भी रहम की निगाह से,
अपना हर एक ज़ख़्म छुपाना पड़ा मुझे
ग़म भी ख़ुशी के साथ निभाना पड़ा मुझे
रोते हुए जहाँ को हँसाना पड़ा मुझे
Subscribe to:
Posts (Atom)