Sunday, 2 August 2015

BEAUTY IN NATURE

https://pbs.twimg.com/media/CK6XvHhUYAE1e64.jpg

This the link to a very beautiful picture. I am sure you will enjoy it.
Shakil Akhtar 

Monday, 13 April 2015

URDU SHAYRI AFTER 9/11

RFIULLAH MIAN WRITES
You will APPRECIATE this WRITE up fully if you are well versed with Urdu and like to see hidden MEANING in poetic compositions. Rafiullah mian gives a scintillating ACCOUNT of  a SELECTION of Urdu shers that depict the thought apparently prevalent among YOUNG Urdu poets in India Pakistan TODAY. First I will give the ACTUAL write up and at the end will try to give in ENGLISH the gist of the same for those who cannot READ Urdu.
 کھڑکی میں خواب 
(کالم: روزنامہ ایکسپریس بروز اتوار پانچ اپریل)
رفیع اللہ میاں
شعری ذوق رکھنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لفظ کے سامنے کے معنی سمجھ کر واہ واہ کرتے ہیں اور دوم وہ جو لفظ کے پیچھے موجود مخفی معنی تک رسائی حاصل کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہمارے لخت لخت معاشرے میں یہ دونوں غنیمت ہیں۔ جب سے نائن الیون نے جنم لیا ہے، زندگی اتنی پیچیدہ، بدنما اور خوف ناک ہوگئی ہے کہ لوگ اصل اور تعین سے کٹ کر محض لمحاتی زندگی جینے لگے ہیں۔ ہر انسان اپنے ذہن میں زندگی گزارنے کے لیے کچھ نہ کچھ اصول متعین کرتا ہے‘ جن پر وہ حال اور مستقبل دونوں میں ممکنہ پیش آسکنے والے واقعات پر اپنے ردعمل یا رویے کا تعین کرتا ہے۔ یوں اس کی زندگی میں ربط کی ایک ڈور تسلسل کی نشان دہی کرتی ہے۔ آج کا انسان کہیں اس تسلسل سے عملاً محروم ہے اور کہیں نفسیاتی طور پر۔
ایسے میں شعری ذوق رکھنے والے اس تسلسل کی باریک ڈور کو تھام سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شاعر اگر اپنے سماج سے اس کی روح کی سطح پر جڑا ہوا نہ ہو تو وہ اُسے اس ڈور کا سرا فراہم نہیں کرپاتا اور اس طرح معاشرے میں شعری ذوق کا رجحان پروان چڑھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ غنیمت یہ بھی ہے کہ غزل کا سفر اب بہت آگے نکل چکا ہے حتیٰ کہ یہ مابعد نائن الیون کے دور میں بھی داخل ہوچکی ہے۔ نوجوان شعرا آج کے سماج سے کسی نہ کسی سطح پر جڑ کر اچھے اشعار کہ رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کا سماج جغرافیائی حدود میں قید نہیں ہے اور اس نے ساری اردو دنیا کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے۔ جے پور سے میرے دوست عادل رضا منصوری نے پاک بھارت سے پندرہ نوجوان شعرا کا ایک انتخاب اس نکتہ نظر کے تحت چھاپا ہے کہ اردو نقاد آج کی نئی آواز اور فکر کو ہمدردانہ نگاہ سے دیکھنے پر تیار نہیں اور وہ آج بھی اس مقولے سے چمٹا ہوا ہے کہ ”اردو میں ساٹھ سال سے پہلے رجسٹریشن ہی نہیں ہوتی۔“ چناں چہ انہوں نے پچیس سے چالیس کے درمیان عمر والے نوجوان شعرا کے کلام کا انتخاب چھاپنے کی ٹھانی۔ اس انتخاب کا مطالعہ کرنے کے بعد جی چاہا کہ اس میں موجود چند اچھے اشعار پر بات کی جائے تاکہ یہ سلسلہ رکے نہیں بلکہ آگے بڑھے۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ اس کا سطحی پن ہے جس نے سماجی قدروں کو نسیان کی تہ میں دھکیل دیا ہے۔ لوگوں کا شور جتنا بڑھ گیا ہے زبان کی وحدت اور اس کا تخلیقی و تہذیبی استعمال اتنا ہی گھٹ گیا ہے۔ اگر زبان کو ہم ایک قوت مان لیں اور گفتگو کو اس کی پروڈکٹ‘ تو ہم دیکھتے ہیں کہ پروڈکٹ نے اپنی تیارکنندہ قوت ہی کو کھالیا ہے۔ اسی طرح روشنی ایک پروڈکٹ ہے جو اپنے مصدر چراغ پر حملہ آور ہے۔ جس طرح آج کے دور میں گفتگو مصنوعی اور سطحی ہے اسی طرح ہمیں نظر آنے والی روشنیاں بھی مصنوعی ہیں جو مایوسیوں کے اندھیروں میں زندگی کی معنویت کو روشن کرنے سے قاصر ہیں۔ لاہور کے عدنان بشیر نے اس حقیقت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
زبان گفتگو کے شور میں کہیں پہ کھوگئی
چراغ روشنی کے خوف کا شکار ہوگیا
اُترپردیش کے امیرامام نے رات کو ایک زندہ وجود کے طور پر دیکھا تو اس کے دکھ کا انکشاف ہوا۔ دور بسنے والے ستارے جو زینت یا سفر یا دنوں کے حساب میں معاون ہوتے ہیں‘ دراصل انسان کے لیے بنیادی ضرورت کی نوعیت کے حامل نہیں جتنا سورج ہے‘ جس سے حیات کا امکان پھوٹتا ہے۔ زمین پر معاشرتی زندگی کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ انسان بے فیض ستاروں کا بوجھ تو بہت ڈھو رہا ہے لیکن اسے حیات بخش سورج میسر نہیں آرہا ہے۔ یہ انسانی رہبری کا المیہ ہے۔ ایک ایسی صبح کا المیہ جو اس کے دکھوں کے لیے حقیقی روشنی کا مرہم لے کر نہ آسکے۔ اسی تھکادینے والے المیے کا اظہار دیکھیں اس شعر میں:
اپنے کاندھے پہ اٹھاؤں میں ستارے کتنے
رات ہوں اب کسی سورج کو بلانا چاہوں
اور امیرامام کا یہ شعر دیکھیں جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہم کس طرح مابعد نائن الیون دور میں جینے کا سامان کررہے ہیں‘ جہاں ہمیں کسی اچھے اور تازہ خیال تک رسائی کے لیے بھی خون کے دریا سے گزرنا پڑے گا:
شاہ رگِ خیال سے تازہ لہو ابل پڑے
اے مرے ذہن جنگجو کاری سا کوئی وار کر
انسان کا اس مادی کائنات کے اندر مقام نہایت معنویت کا حامل ہے جو تعمیر و ترقی سے عبارت ہے۔ تعمیر و ترقی کا کام ایک روحی جذبے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انسان ہی وہ مخلوق تھی جس نے تہذیبی و اخلاقی ارتقا کا بیڑا اٹھایا۔ یہ مادی کائنات وقت کی روح میں ہر آن پھیلتی جارہی ہے اور انسان اس ارتقائی عمل کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس تصور کو نئی دہلی کے سالم سلیم نے یوں باندھا ہے:
جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو
روح کے اندر کوئی کارِ بدن ہوتا ہوا
نئی دہلی کے تصنیف حیدر نے اس سے ملتے جلتے شعری اظہار میں کائنات کے دیگر حصوں میں حیات کے نشان تلاش کرنے کے سائنسی عمل کے ذریعے انسان کی امتیازی حیثیت کو یوں بیان کیا ہے:
دشت میں پانی کے قدموں کے نشاں
ہم نہ دیکھیں گے اگر دیکھے گا کون
آج کے گرد آلود اور پیچیدگیوں بھرے سماج میں انسانی ذہن جن پریشان کن اور غیر یقینی کیفیات کی زد میں ہے‘ ان کی وجہ سے نہ صرف فکرو شعور پر اندھیرا چھایا ہے بلکہ تمام معاشرہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہم سورج کو طلوع ہوتے دیکھتے ہیں لیکن کم ہی اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ معنوی طور پر ہمارے سماج پر رات کا بسیرا تاحال قائم ہے۔ حسن ابدال کے ضیاءالمصطفیٰ ترک کا شعر دیکھیں:
عجب ہے گرد گزشتہ دنوں کی چھٹتی نہیں
یہ کیا کہ صبح تو ہوتی ہے رات کٹتی نہیں
عین اسی صورت حال کو ایک اور لیکن زیادہ خوبصورتی سے اور روح عصر سے جڑے طرز اظہار میں لاہور کے حماد نیازی نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے۔ لیکن ان کے شعر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں امید کا رنگ بھی واضح ہے۔ یہاں ”دھند کے لشکر“ کا استعمال دیکھیں۔ اندھیرے میں دیا کام آجاتا ہے لیکن دھند میں تو دیا بھی کام نہیں آتا۔ یعنی دھند سے لڑنے کی اپنی سی کوشش کرنے والے بھی موجود ہیں جو غنیمت ہیں۔
دھند کے لشکر کا چاروں اور پہرہ تھا مگر
اک دیے نے روشنی کی رات بھر تشہیر کی
اگر ایک طرف ہم ملکی سطح پر قومی وجود کے طور پر تنزلی کا شکار ہیں تو دوسری طرف عالمی وجود کی حیثیت سے بھی بطور انسان ہم اقداری تنزلی کا شکار ہیں۔ ہم اندھیروں کی جانب خود کو دھکیل رہے ہیں‘ اور ہم نے اپنے اس روشن عہد کو موت کی تاریکیوں میں بدل دیا ہے۔ حسن ابدال کے دلاور علی آذر کا یہ شعر دیکھیں:
عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
ہم اپنے عہد کے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں
دوسرے شعرا کی طرح عادل رضا منصوری کے اس مرتب کردہ انتخاب میں خود ان کی بھی پانچ غزلیں شامل ہیں۔ کتاب کا نام ”کھڑکی میں خواب“ ان کی ایک غزل کے شعر سے لیا گیا ہے۔ یہ شاید ہمارے لخت لخت سماج کے انسان کے بے ثبات اور کچے خوابوں کا استعارہ ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہم انھی خوابوں میں رہتے ہیں۔ دیکھیں:
اس میں کیسے رہتے ہو
کھڑکی میں ہے خواب کھلا
اور اب آخر میں ملتان کے احمد رضوان کا ایک خوبصورت شعر بلاتبصرہ :
جب بھی کہیں حساب کیا زندگی کا دوست
پہلے تمھارے نام کا حصہ الگ کیا

Unlike · Comment · Share


It is Adil Raza Mansuri of Jai Pur, India who compiled in a book, ghazals of young poets of Indo Pak region, aged 25-40 including few of his own and sent a copy to Rafi Mian in Karachi.
Rafiullah Mian in this write up, after giving an account of how people in general and poets in particular seem to have lost touch with the reality of life concludes that still there are some who do give a hint of how their thoughts have become influenced by the events after 9/11. He then proceeds to deal with select and representative some ashaars of some of these poets.
Rafi’s comments are by no means final (I think). You may let your imagination loose also.
[The literal translations, and the imperfections there of if any, are mine, but the meaning behind the words are yours to find.]
1. Zubaan guftgoo k shor mein kahiN pe kho gayi
Chiraagh roshni k khauf ka shikaar ho gaya.
[The language itself is lost in the heat of conversation, it looks like the lamp has been overtaken by its own light.]
This sher of Adnan Bashir of Lahore describes how people these days ignore the substance and run after the shadows. The actual language with literary flavours has gone on the back foot and people argue/ discuss/converse in cheap street talk and the shayer equates this state of affairs as though the source of light, the lamp, has become blurred behind its own glare.
2. KaaNdhe pe uThauN main sitaare kitne
raat huN ab kisi sooraj ko bulana chaahuN.
[Being a mere night, how long will I be able to support these stars,
How I wish there appears now a sun on the horizon]
Amir Imam of U.P. India confesses he is under the burden of a myriad of small and ineffective leaders in life and awaits the arrival of a true messiah.
3. Shaah e rag e khayaal se taaza lahoo ubal paRe
aye mere zehen e jang ju, kaari sa koi waar kar.
[So that there gushes fresh blood from the pulsating veins of my thought, strike hard, O my militant intellect]
Amir Imam again in this sher seems to be too much influenced by the violence he finds around him that even for his own creativity he thinks his own intellect must become violent.
4. Juz hamare kaon aakhir dekhta is kaam ko
rooh ke andar koi kaar e badan hota hua.
[It was a job that who other than us would or could have undertaken: The act of rendering the soul a meaningful existence.]
Here Saalim Saleem of New Delhi highlights the importance of humans on the stage of the universe. He states that of all the creation, it was only us humans who have taken up the challenge of evolution not only materially but also spiritually. [The Holy Quran (59:21) asserts as much]
5. Dasht mein paani ke qadmoN ke nishaaN
ham na dekheN ge agar dekhe ga kaon.
[who else other than us would or could identify the signs of water taking a walk in the desert.]
Tasneef Haider of New Delhi composed this imposing couplet. Rafiullah thinks he is trying to describe the efforts of us humans searching for life in other corners of the universe in its vast vastness. [for me it could be looking for small hopes in the gloom/misery of today. I commend the wonderful wording of “dasht mein paani ke qadmon ke nishan”: foot prints in the sand as water walks in the desert!]
 6. ajab hai gard guzishta dinoN ki chhaTti nahiN.
Ye kya ke subh to hoti hai raat kaTti nahiN.
[The dust gathered by us during the past is hard to get rid of.
How come even when the dawn dawns, the night still persists.]
From Hasan Abdal Zia ul Mustafa Turk writes about the situation today that even when it appears that a breakthrough has been achieved and life in general could take a turn for the better, one finds that it was just a mirage.
7. Dhund ke lashkar ka chaaroN or pahra tha magar
ek diye ne roshni ki raat bhar tashheer ki.
[The all encompassing fog had spread itself all over, but there was a small (earthen) lamp that kept on fighting it all night with its feeble rays.]  
Hammad Niazi of Lahore has acknowledged the gloom but at the same time he is aware of some hope in the form of a few who continue to fight the adversities with whatever meagre means they have got. A lamp can eliminate the darkness but he is fighting the fog with a lamp, although in general a lamp (even a sun) is ineffective in the face of fog. This is very encouraging; for hope is every thing.
8. Ajeeb rang ajab haal mein paRe hue haiN
ham apne ahed ke pataal mein paRe hue hain.
[It is a very strange situation indeed,
we find ourselves in the deepest recesses of our era.]  
Dilawar Ali from Hasan Abdal simply states what he sees as a sad fact that we as a nation (India Pakistan) and as members of people of the whole world are trapped in a whirling spiral which is taking us down towards the deepest reaches of degradation; culturally, ethnically and morally.
 
9. Is meiN kaise rahte ho
khiRki meiN hai kHwaab khula
[How do you manage to live in this (madness)? The window opens to a dream.]
This is perhaps the one sher that gave me shivers as to get to its meaning. Even Rafi uses the word ‘perhaps’ when he writes that it means that most of us are living with impossible dreams and know it but continue all the same. Adil Raza Mansoori, who wrote this, might like to come here for our rescue.
10. Jab bhi kahiN hisaab kiya zindagi ka dost.
Pahle tumhaare naam ka hissa alag kiya.
[whenever I decided to take an account of my life, I first of all set aside the chapter that begins with your name, (O beloved)]

Ahmad Rizwan of Multan gave us this beautiful couplet which I leave as it is without any comment.